جو میں نے دیکھا ‘ سنا اور سوچا 1970ء میں چودہ تولے سونا
ایک عمر رسیدہ خاتون پریشان حال‘ غربت آنکھوں سے ‘ لباس سے‘چال سے‘ حال سے‘ قال سے‘ ڈھال سے بالکل نمایاں تھی۔ کہنے لگی ہم بہن بھائی تھے‘ ایک ہی ماں کی گود میں کھیلے اور ایک ہی چھاتی سے دودھ پیا۔ والدین نے مجھے زیورات بہت دئیے‘ بھائی کسی مجبوری کی وجہ سے میرے پاس آیا کہ بہن مجھے اپنا تھوڑا سا زیور دے دو۔میں بیچ کر اپنا ایک انتہائی پریشان کن قرضہ ہے وہ ادا کردوں گا۔ تو میری بہن ہے۔۔۔تو میرے دکھی وقت میں کام نہیںآئے گی تو پھر کون کام آئے گا؟ اس کے آنسو‘ اس کی منت‘ التجا اور زاری نے میرے دل کو نرم کردیا۔ میں نے اس کو زیور دیا یہ ابتدا انیس سو ستر میں ہوئی۔ پھر وہ وقتاً فوقتاً اپنی مصیبتیں لے کر میرے پاس آتا اور زیور لیتا رہاحتیٰ کہ میرا سارا زیور لے گیا۔پھر اسی طرح پیسے بھی لینے شروع کیے اور ساٹھ ہزار دے دئیے۔ وہ ہر بار آتا اور مجھے لکھ کر دے جاتا کہ میں نے اتنے لیے ہیں اور میںواپس د وں گا۔ جب سارا زیور ختم ہوگیا میں نے واپسی کا مطالبہ کیا آج کل میںٹالتا رہا اچانک میرے اس بھائی کو فالج ہوگیا اس کی گویائی چلی گئی‘ نظروں کی چمک کم ہوگئی‘ سننا بند ہوگیا اور بائیں سائیڈ بالکل ختم ہوگئی۔ اب میں روز چکر لگاتی ہوں اپنی بھابی کے پاس جبکہ میری بھابی کو سارا علم ہے۔ بھائی جب بھی زیورات لینے آتا بھابی کو بھی ساتھ لاتا تھا۔ ان کے بیٹے کاروباری ہیں بہترین بزنس ہے‘ گھرمیں کھانےپینے کی چیزوں اور گاڑیوں کی ریل پیل ہے۔ میں جب بھی جاتی ہوں تو بھابی بُرا سا منہ بنا کر کہتی ہے کہ تو نے مجھے تو نہیں دیا تھا بھائی کو دیا تھا یہ پڑا ہے اس سے لے لو۔میں حیران ہوتی ہوں کہ آج ان کے پاس جتنا کاروبار ہے وہ میرے زیور اور پیسوں کی وجہ سے ہے۔ بھتیجے پوچھتے نہیں‘ گھر جاؤں تو سلام کا جواب نہیںدیتے‘ میں بھائی کے ساتھ چپ کرکے بیٹھی رہتی ہوں‘ بھابی اگر فارغ بھی بیٹھی ہے تو میرے جاتے ہی مصروف ہوجاتی ہے۔ میں کیا کروں؟ وہ خاتون یہ درد بیان کرکے مسلسل رو رہی تھی اور میں حیران اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔
کیا حلال و حرام کی تمیز ختم ہوگئی؟ اور یہ احساس نہ رہا کہ میں نے قیامت کے دن ایک ایک پیسے کا حساب دینا ہے؟ اس شخص نے مال اکٹھا کیااور اولاد کو دیا۔ اولاد مال کے مزے لوٹ رہی ہے اور وہ خود موت کے انتظار میں دن گن رہا ہے۔ کیا اولاد کے سامنے اس شخص کی قبر‘ اس کی آخرت‘ اس کا خاتمہ بالخیر ہونا نہیں ہے‘ کیا ہم قبرو آخرت سے اتنا دور چلے گئے ہیں؟ کیا قیامت کی جواب دہی ہمارے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی؟ آخر ہم اتنے بے حس کیوں ہوگئے ہیں‘ ہم اندر سے مردہ کیوں ہوگئے ہیں‘ اپنا نقصان کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں‘ یہ چیز اس وقت ہوتی ہے جب انسان صرف ختم خیرات یا غریب کی مدد یا پھر کبھی رسم و رواجی دین کا کوئی فنکشن منا لے اور اسی کو آخرت اور دین سمجھے۔ اللہ والو! یاد رکھنا دین و شریعت ہماری ضرورت ہے آپ نے بھی ایک تجربہ کیا ہوگااور میری بات پر آپ کو سارے تجربات یاد آجائیں گے اوریہ تجربہ میں نے بھی کیا وہ یہ کیا کہ حرام سے کبھی نسلیں نہ پلتی ہیں نہ پنپتی ہیں۔ حرام سے نسلوں میں سکون اور چین نہیں آتا‘ حرام سے زندگیاں بے چین اور بے قرار ہوجاتی ہیں‘ حرام سے قتل و غارت‘ بیماریاں‘ پریشانیاں‘ اکتاہٹ اور بے چینی جنم لیتی ہے۔ آزمانا ہے تو آزمالیں نہیں آزمانا تو جو آزما چکے ہیں ان کی زندگی کے تجربات دیکھ لیں۔ آپ کو واضح احساس ملے گا کہ زندگی حلال سے چلتی ہے حرام سے نہیں چلتی۔ لہٰذا جلدی سے اپنی زندگی میں جتنی بھی حرام اور مشکوکات ہیں ان سب سے ابھی سے پناہ لیں اللہ پاک مجھے اورآپ کو یہ شعور اور آگہی عطا فرمائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں